Mantiq-ut-Tayr - Urdu (2nd Edition)

MANTIQ-UT-TAYR - URDU (2ND EDITION) منطق الطیر (اردو)

MANTIQ-UT-TAYR - URDU (2ND EDITION)

PKR:   3,000/- 2,100/-

Author: SHEIKH FARID UD DIN ATTAR
Translator: MAHBOOB KAASHMIRI
Binding: hardback
Pages: 723
ISBN: 978-969-662-406-6
Categories: POETRY PERSIAN LITERATURE WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER

عطار نے بہت سی رباعیات اور غزلیات بھی لکھی ہیں لیکن مثنوی اُن کا خاص میدان ہے۔ اُن کی مثنوی ’’منطق الطیر‘‘ اُن کا وہ شہکار ہے جسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ دُنیا کی عظیم زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں اور زمانےبھر کی عظیم ادبی شخصیات نے اِس کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اِس میں تصوف کے بنیادی عقائد اور نظریات کا ذکر تمثیلی انداز میں کیا گیا ہے۔ غیر مَرئی حقائق کو مَرئی رنگ دیا گیا ہے۔ منطق الطیر وحدت الوجود کے فلسفے کی ترجمان ہے۔ اصل میں وجود ایک ہے جو واجب الوجود ہے، باقی سب اُسی کا پرتو ہے ...
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
عطار کی یہ مثنوی محویت، محبّت اور اِستغراق سے لبریز ہے۔ عطار کے سوزِدروں نے اسے جاوِداں بنا دیا ہے۔
بک کارنر جہلم کا مؤقر اِشاعتی اِدارہ اس عظیم مثنوی کو حسبِ روایت نہایت دلکش انداز میں شائع کر رہا ہے.... افراد ہی نہیں زبانیں بھی گمشدہ ہوتی ہیں، ہمارے ہاں اب فارسی بھی گمشدہ زبان ہے۔ اقبال کی نصیحت بھی یہی ہے کہ .... کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر.... اِس عظیم تصنیف کی اِشاعت فارسی کی بازیابی کی بڑی مبارک کوشش ہے۔
(انور مسعود)

شیخ فرید الدین عطّار نیشاپوری کی موجود پانچ مثنویوں (الٰہی نامہ، مصیبت نامہ، اسرار نامہ، خسرو نامہ اور منطق الطیر) میں سب سے مشہور و معروف اور خاص اہمیت کی حامل مثنوی ’’منطق الطّیر‘‘ ہے۔ یہ عرفانی اور تصوفی مثنوی ہے جیساکہ خود عطّار نیشاپوری نے ’’خسرونامہ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یہاں عشق کے مرغ کی معراج جانبازی ہے۔ منطق الطّیرمیں 4458 اشعار ہیں۔ بعض موجود نسخوں میں اشعار کم یا زیادہ ہیں یعنی شعروں کی تعداد 4300 سے 4600 کے درمیان ہے۔ اس کی بحر رمل مسدس محذوف ہے۔ ’’منطق الطّیر‘‘ کی ترتیب میں حمد، نعت، منقبت کے بعد داستان شروع ہوتی ہے۔ اس مثنوی میں پینتالیس عنوانات ہیں اور آخر میں خاتمۂ کتاب ہے۔ ہر عنوان ایک حکایت ہے۔ مثنوی کا موضوع دلچسپ ہے۔ ایک مقام پر پرندے جمع ہوتے ہیں تاکہ اپنے لیے بادشاہ منتخب کریں۔ ہُدہُد پرندہ جو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں رہ چکا ہے، ان پرندوں کا راہنما بنتا ہے اور کہتا ہے ہمارا بادشاہ سیمرغ ہے اور اُس تک پہنچنا آسان نہیں۔ وہاں جانے کے لیے سات پُرخطر وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ راستے میں مشکلات، رنج اور مصیبتیں آئیں گی لیکن سب کا مقابلہ عشق کی قوت، مسلسل جدوجہد اور صداقت سے کرنا پڑے گا۔ سیمرغ کوہ قاف میں رہتا ہے جو بلند ترین پہاڑی سلسلہ تمام دُنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے پرندوں نے مشکلات کا ذکر سن کر سفر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہُدہُد نے بتایا کہ سات خطرناک وادیاں ہیں جن کو طے کرنا ہے۔ پہلی وادی طلب ہے اور دوسری وادی عشق ہے۔ تیسری وادی معرفت ہے، چوتھی وادی قناعت، پانچویں وادی توحید، چھٹی وادی حیرت اور ساتویں وادی فقر اور فنا ہے۔ تب جاکر راستہ صاف ہوجاتا ہے اور سیمرغ سے ملاقات کا سامان تیار ہوتا ہے۔
(ڈاکٹر سیّد تقی عابدی)

RELATED BOOKS