KARAMAZOF BRADARAAN (3RD EDITION) کرامازوف برادران





PKR: 4,000/- 2,800/-
Author: FYODOR DOSTOEVSKY
Translator: SHAHID HAMEED
Binding: hardback
Pages: 1432
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-307-6
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS RUSSIAN LITERATURE
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 10 August 2025
’’کرامازوف برادران‘‘(1880ء) دستوئیفسکی کا آخری ناول ہے، جسے دُنیا کے ہر نقاد نے عظیم ترین ناولوں میں شمار کیا ہے۔ ناول کا ہیرو الیوشا رُوسی قوم، رُوسی مذہب اور مذہبیت کی اعلیٰ ترین پیداوار ہے اور اسے اپنی سرزمین اور ماحول سے بہت گہرا اور سچا لگائو ہے۔ اس کی سیرت اور وہ اصول جن پر وہ تعمیر کی گئی ہے، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دستوئیفسکی بغاوت، انکار اور شک کے تمام مراحل طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ گیا تھا۔ اس کا ناول وہ طوفان برپا کر دیتا ہے، جس سے پرانی دُنیا بگڑتی اور نئی دنیا بنتی ہے۔ 1958ء میں ہالی ووڈ نے اس ناول پر فلم بھی بنائی جس میں یوئل برینر نے میٹسا کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ناول دستوئیفسکی کی موت سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا، لیکن اپنی اس موت سے پہلے بھی دستوئیفسکی ایک بار موت کا مزہ چکھ چکا تھا اور تجربہ اتنا انوکھا اور دُور رَس نتائج کا حامل تھا کہ اس کے اثرات دستوئیفسکی کے شاہکار ناولوں پر واضح طور سے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ دستوئیفسکی کو اُردو میں منتقل کرنا بطور خاص مشکل کام ہے لیکن کسی کو ہمت تو کرنی تھی۔ یہ سوچ کر مایہ ناز ادیب، ماہرِلسانیات اور مترجم شاہد حمید نے اس عظیم ناول کا اُردو میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ انھوں نے اِس ضخیم ناول کے ترجمے پر نہ صرف عمرِ عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا، بلکہ متن سے مخلص رہنے کے لیے شب وروز محنت کی۔ شاہد حمید نے اُردو زبان کی ثروت مندی میں جو اضافہ کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
---
فیودور میخائلووچ دستوئیفسکی 11 نومبر 1821ء کو ماسکو میں پیدا ہوئے۔ وہ کُل سات بہن بھائی تھے۔ بچپن اور لڑکپن کی بھلی یادوں میں ماں کی سنائی ہوئی آپ بیتیاں شامل تھیں۔ لیکن گھریلو ملازمہ الیونا کی سنائی ہوئی پریوں کی کہانیاں بھائیوں بہنوں کو دل و جان سے پسند تھیں۔ دیہات تک کے سفر اور وہاں گزاری چھٹیوں کا الگ مزہ تھا۔ کہانیاں سننے اور پڑھنے کا چسکا دستوئیفسکی کو بچپن سے پڑ گیا تھا۔ ہسپتال کے دُکھی مریضوں اور دیہات کے زرعی غلاموں سے، جو کم دکھی نہ تھے، ملنے جلنے اور دُکھڑے سننے میں اس کا دل بہت لگتا۔ وہ ماسکو کے مارینسکی کے ایک غریب طبیب کے بیٹے تھے۔ گھریلو حالات اتنے خوشحال نہ تھے۔ بچپن ہی سے انھیں غربت اور مصیبت سے سابقہ پڑا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے فوجی سکول کے انجینئرنگ کے شعبے میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی، پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ چند برسوں کے بعد دستوئیفسکی نے فوج سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنا سارا وقت تصنیف و تخلیق کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔ ان کا پہلا ناول ’’بےچارے لوگ‘‘ شائع ہوا تو اپنے عہد کے عظیم رُوسی نقاد بیلنسکی نے انھیں ’’عظیم ادیب‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ رُوسی نقادوں نے بدلتے ہوئے تقاضوں اور حالات کے تحت، بالخصوص انقلابِ رُوس کے بعد کے کچھ برسوں میں اس سلسلے میں کچھ نظرثانی کرنے کی کوشش کی لیکن اُن سے یہ خطاب چھینا نہ جا سکا۔ اُن کے ناولوں نے انھیں رُوسی انشا پردازوں کا سرتاج بنا دیا تھا۔ اس دوران میں دستوئیفسکی بعض نوجوانوں کے ایسے حلقے میں آنے جانے لگے جو رُوس کے حالات بدلنے، انقلاب برپا کرنے اور زار کا تختہ اُلٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ بدقسمتی سے اس حلقے اور اس میں ہونے والی بحثوں کی بھنک حکومت کے خفیہ اداروں کے کان میں بھی پڑ گئی۔ حکم ہوا کہ سب نوجوانوں کو دھر لیا جائے۔ اس میں دستوئیفسکی بھی شامل تھے۔ یہ 22 اپریل 1849ء کا واقعہ ہے، دستوئیفسکی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عمل کرنے کے لیے انھیں لے جایا گیا، لیکن اس سے پہلے کہ ان کے گلے میں پھندا ڈالا جاتا، ان کی سزائے موت کی تبدیلی کا حکم آ گیا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے دستوئیفسکی کے اعصاب اور رُوح پر ساری عمر اپنا تاثر قائم رکھا۔ بہرحال وہ عالمی ادب کو اپنے عظیم ناولوں سے مالا مال کرنے کے لیے بچ گئے اور انھیں سائبیریا بھیج دیا گیا۔ 1859ء میں قید و بند کی صعوبتوں سے نجات کے بعد دستوئیفسکی پھر اپنی تخلیقی دُنیا میں واپس آ گئے۔ انھیں اسی زمانے میں مرگی کا مرض لاحق ہوا تھا۔ دستوئیفسکی کے فن میں اب وہ باطنی و نفسیاتی گہرائی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے جس کی مثال پوری دُنیا کا ادب پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دستوئیفسکی کے خاص اور شاہکار ناولوں کو دُنیا کی ہر بڑی زبان میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ’’جرم و سزا‘‘ پر فلمیں بنیں، ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ ’’کرامازوف برادران‘‘ آخری ناول ہے۔ سکہ بند مترجم شاہد حمید کی محنتِ شاقہ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل اس مشکل اور دقیق ناول کا اُردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ خود دستوئیفسکی اِس کو اپنا سب سے وقیع کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہ ناول اُن کی موت سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا۔ دستوئیفسکی کو پڑھنا ایک عظیم تجربہ ہے۔ بقول محمد حسن عسکری، جو لوگ اپنے آپ اور اپنے باطن کے جہنم کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دستوئیفسکی کو کبھی ڈھنگ سے پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ دُنیائے ادب کے لازوال ناول نگار اور ناول نگاری کے فن کو جِلا بخشنے والے دستوئیفسکی، سینٹ پیٹرز برگ میں 9 فروری 1881ء میں انتقال کر گئے۔ ان کی عظمت کا یہ ادنیٰ ثبوت تھا کہ ان کا جنازہ اس شان سے اُٹھا جس پر بادشاہ بھی رشک کر سکتے تھے۔ اگر دُنیائے ادب کی تقسیم مقصود ہو تو کہا جائے گا کہ ادب کے دو اَدوار ہیں، ایک دستوئیفسکی سے پہلے کا ادب اور ایک دستوئیفسکی کے بعد کا ادب۔
---
شاہد حمید اُردو کے مایہ ناز ادیب، ماہرِ لسانیات اور مترجم ہیں۔ وہ 1928ء میں جالندھر کے ایک گاؤں پَرجیاں کلاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔ 1947ء میں فسادات کے دوران پاکستان ہجرت کی۔ لاہور آ کر اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں خواجہ منظور حسین اور ڈاکٹر محمد صادق قابلِ ذکر ہیں۔ مشہور نقّاد مظفر علی سیّد فرسٹ ایئر سے سِکستھ ایئر تک شاہد حمید کے کلاس فیلو رہے۔ شاہد حمید نے دورانِ تعلیم بطور صحافی ’’روزنامہ آفاق‘‘ میں کام کیا، پھر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ ایمرسن کالج ملتان، گورنمنٹ کالج ساہیوال اور گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔ ادب سے دلچسپی بہت پُرانی ہے، لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں سے عالمی کلاسک کا ترجمہ زبان و ادب کی بدرجہا بہتر خدمت ہے۔ یہ سوچ کر زمانۂ طالبِ علمی ہی میں ڈیل کارنیگی کی ہر دل عزیز کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا سیکھیے‘‘ کا اُردو ترجمہ کیا، پھر لیو طالسطائی کے عظیم ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کا بِیڑا اُٹھایا اور کئی سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اس کام کو مکمل کیا۔ اس ترجمے پر انھیں بہت داد ملی۔ انھوں نے ایڈورڈ سعید کی نہایت اہم تصنیف ’’مسئلۂ فلسطین‘‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ ایڈورڈ سعید کی پیچیدہ نثر سے انصاف کرنا مشکل تھا لیکن یہ مرحلہ بھی شاہد حمید نے کامیابی سے طے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے جین آسٹن کے ناول ’’تکبّر اور تعصّب‘‘، ہیمنگوے کی ’’بوڑھا اور سمندر‘‘، غسّان کنفانی کی ’’دُھوپ میں لوگ‘‘ اور جوسٹین گارڈر کی بین الاقوامی بیسٹ سیلر ’’سوفی کی دُنیا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ مراکش کے ادیب محمد مرابط کے افسانوں کا انتخاب ’’بڑا آئینہ‘‘ بھی ترجمہ کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دستوئیفسکی کے ناول ’’کرامازوف برادران‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کو دنیا بھر میں دستوئیفسکی کی سب سے باکمال تصنیف سمجھا گیا ہے۔ اس کی اُردو میں دستیابی ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ انھوں نے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ان ضخیم ناولوں کے تراجم پر نہ صرف عمرِ عزیز کا بڑا حصّہ صَرف کیا، بلکہ متن سے مخلص رہنے کے لیے شب و روز محنت کی۔ انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقّاد شمیم حنفی نے کہا تھا، ’’یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیر معمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔‘‘ ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود نے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط میں شاہد حمید کو حیرت خیز آدمی قرار دیا۔ نامور شاعر افتخار عارف نے ’’کرامازوف برادران‘‘ کی جدید طباعت دیکھ کر کہا، ’’دستوئیفسکی کا شمار دُنیا کے عظیم ترین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ طالسطائی، گورکی، جین آسٹن، مارکیز، یوسا کی صف میں بھی وہ نمایان نظر آتے ہیں۔ دُنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ان کے تراجم کیے گئے ہیں۔ اُردو ترجمہ شاہد حمید مرحوم نے کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اُردو تراجم کی تاریخ میں یہ ترجمہ بہ لحاظ صحتِ متن اور رُوسی زبان کی فضا کو برقرار رکھنے کی ہنروری کے سبب تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ بک کارنر جہلم کے عزیزم گگن شاہد اور امر شاہد نے اس کتاب کو شائع کر کے بڑا کام کیا ہے۔ اِس عالمی اہمیت کے ناول کی اشاعتِ جدید ایک واقعے سے کم نہیں۔‘‘ شاہد حمید نے اپنی خودنوشت ’’گئے دنوں کی مسافت‘‘ کے نام سے تحریر کی تھی اور دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل انگریزی اردو لغت بھی تیار کی ہے، جو زیرِطبع ہے۔ ان کا انتقال 29 جنوری 2018ء کو ہوا اور ڈیفنس لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ شاہد حمید نے اُردو زبان کی ثروت مندی میں جو اضافہ کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
---
سرورق مصور:
وسیلی پیروف (1834ء-1882ء): 1870ء کی دہائی کے ابتدائی عرصے میں پیروف کی مصوری نے رُوس کی عظیم ثقافت کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ 1872ء میں اس نے دستوئیفسکی کی یہ تصویر مکمل کی۔ یہ دستوئیفسکی کا ادبی کام تھا جس نے پیروف کو اس طرح متاثر کیا کہ اس نے انیسویں صدی کے رُوس کی پریشان حال سیاسی، سماجی اور روحانی فضا میں انسانی نفسیات کی گتھیاں سلجھائیں۔ اس جدید طباعت کے سرورق پر دی گئیں دونوں تصاویر پیروف ہی کے موئے قلم کے شاہکار ہیں۔
Reviews
Maaz Jamshaid (Bahawalpur)
Inshazaman (Shinkiari)
M Jahangir Kz (Hyderabad)
میں بہت عرصے سے کتابیں خرید رہا ہوں لیکن بک کارنر جھلم سے خریدنے کا اتفاق کل پہلی بار ہوا، اور بہت افسوس ہے کہ اتنے عرصے سے یہ ادارہ میری نظر میں کیوں نہیں آیا، کیوں مجھے بک کارنر جیسے پاکستان کے بہترین اشاعتی اور طباعتی ادارے کا پہلے علم نہ چل سکا، کاش بہت پہلے سے بک کارنر سے کتابیں خریدتا تو آج میری جو۔ چھوٹی موٹی لائبریری ہے اس میں بہت ہی اعلیٰ معیاری اور خوبصورت کتب موجود ہوتی، جن کو بہت باریکی سے، بلکل لگن سے نہ صرف چھاپہ گیا ہوتا بلکہ ہر پہلو میں معیار کو سب سے آگے رکھا، معیار میں کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا ہوتا، لیکن چلیں better late than never.
اب ایک بار میں نے کتابیں خرید لیں ہیں تو اب اس بات کا تو امکان ختم ہی یو گیا کہ اب کسی اور سے کتابیں خریدوں، ایک بار جو اعلیٰ معیاری کتابوں کو اپنی لائبریری کی زینت بنادیا تو اب غیر معیاری کتابوں میں تو بلکل کوئی مزہ نہیں آئے گا۔ صرف کتابوں میں ہی نہیں معیار کا اتنا اعلیٰ مقام بک کارنر کی پوری ڈی این اے میں ہے، کسٹمر سروس بہترین، ویبسائٹ کا بہت عمدہ ڈیزائن اور یوزر فرینڈلی کے کوئی مشکل ایسی پیش نہیں آئی پورے کے پورے پروسیس میں، کتابیں آنلائن آڈر کرنے سے لے کر کتابیں گھر کی دہلیز تک پہنچنے میں، ڈیلیوری اتنی بہترین کے پنجاب جھلم سے صرف دو دنوں میں کتاب مجھے حیدرآباد میں مل گئی، اعلیٰ معیار کی پیکنگ کے ساتھ بہت ہی محفوظ طریقے سے مجھ تک پہنچ گئی۔
کسٹمر کو بلکل جیت لیتے ہیں ایک بار جو خریدتا ہے وہ پھر مستقل کسٹمر ہی بن جاتا ہے، میں تو بلکل اب مستقل کسٹمر بن چکا ہوں کتابوں کا اتنا اعلیٰ معیار اور اس ادارے نے جو احترام اور مقام ایک کتاب کو دی ہے اس کو دیکھ کر۔ انشاء اللہ جلد ہی وآپسی ہوتی ہے اگلی خریداری پر ♥️❤️۔ سلامت رہے یہ ادارہ، اور اس کو چلانے والے دونوں محترم بھائیوں پر اللّٰہ تعالیٰ کا خاص کرم ہو ، ہمیشہ اور اس ہی طرح کتابوں سے محبت کرتے رہیں اور کتابیں پڑھنے والوں کو بہترین کتابیں فراہم کرتے رہیں۔
Gm Jelani (Kundian)
Bht shukria book corner jehlum
24 hours main parsel phnch gea
Allah SWT aap k kam main barkat dy ameen
Muztar Hashmi (Lahore)
چیخوف میرا پہلا عشق ہے اور دستوئیفسکی کو دوسرا کہہ سکتا ہوں۔ چیخوف کے ڈرامے ہوں یا افسانے ان میں ایک جہاں آباد ہے ، جس طرح کی تصویر کشی چیخوف کے افسانوں میں پائی جاتی ہے وہ اور افسانہ نگاروں کے ہاں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
دستوئیفسکی کی سی افسردگی اور ناول نگاروں کے ہاں معدوم ہے شاید اس کی وجہ دستوئیفسکی کی وہ سزائے موت ہے جس کے بعد دستوئیفسکی کا ایک معنی خیز جنم ہوا ،دستوئیفسکی کی ادبی زندگی کی ابتداء اسی سزائے موت کے بعد ہوئی ، اگر آپ انسانی نفسیات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو دستوئیفسکی کو پڑھیے ۔ اگر آپ اس روس کو دیکھنا چاہتے ہیں جس نے دنیا کو تین بڑے ( دستوئیفسکی، ٹالسٹائی اور چیخوف) قصہ گو دیے تو دستوئیفسکی کے ناول پڑھیے ،
بک کارنر والوں کا اشاعتی اداروں میں اپنا ایک مقام ہے ، کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ ، آرٹ پیپر، جلد بندی اور سرورق ہر لحاظ سے اور پاکستانی اداروں سے الگ ہے ۔ کتاب چھاپنا ایک فن ہے تو بک کارنر والے اس کے ماہر ہیں ، کتاب کو کس طرح قاری تک محفوظ پہنچانا ہے یہ سب ناشر ، بک کارنر والوں سے سیکھیں ۔
MI Abbas
فلسفہ بہت عمدہ ہے۔ انسانی نفسیات کے پیچیدہ پہلووں پر حق اور باطل کی بحث اس ناول کا خاصہ ہے۔انصاف کے کٹہرے میں وکلاء کے بیانات اور جاندار مکالمے قاری کی سوچ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
Aamir Mahmood