YUNANI ASBAAQ (GREEK LESSONS) یونانی اسباق




PKR: 1,200/- 840/-
Author: HAN KANG
Translator: YOUNAS KHAN
Binding: hardback
Pages: 232
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-629-9
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL TRANSLATIONS KOREAN LITERATURE
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 01 October 2025
پیچ در پیچ اور نہایت لطیف ’’یونانی اسباق‘‘ زبان، جبر، غم و اندوہ اور قربت پر ایک غیرمعمولی مراقبہ ہے۔ ہان کانگ ایک منفرد مصنفہ ہیں۔ چند جملوں میں ہی وہ گویا مکمل انسانی تجربے کی وسعت کو سمیٹ لیتی ہیں۔
—کیٹی کیتامورا، مصنفہ "Intimacies"
یہ زبان، سیکھنے کے عمل، اور ربط کی امید کے نام ایک محبت نامہ ہے۔ یہ ذہن اور جسم، ہمارے خیالات اور حواس— یعنی اس بات پر ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہونا دراصل کیا مطلب رکھتا ہے۔
—جولیا فِلپس، مصنفہ "Disappearing Earth"
ہان کانگ کی کتاب پڑھنا ایک ایسا لطف ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ شاعرانہ بھی اور فکری طور پر گہری بھی، "Greek Lessons" انسانی ربط کی نازکی اور قوت کے بارے میں ایک خوبصورت اور دل میں اُتر جانے والی کہانی ہے۔
—اینجی کم، مصنفہ "Miracle Creek" اور "Happiness Falls"
حیران کر دینے والی ہان کانگ ہمیشہ سب سے زیادہ انکشافاتی مصنفہ رہی ہیں: وہ جذبات کے اُفق کو وسیع تر کر دیتی ہیں۔ بلاشبہ وہ میری پسندیدہ مصنفہ ہیں جن کے ساتھ پڑھنا، سوچنا اور دُنیا کو دیکھنا بےحد متاثر کن ہے۔
—میکس پورٹر، مصنف "Grief Is The Thing With Feathers"
حسی و روحانی بصیرت سے مالا مال اور عرفان سے معمور۔
—کیتھی پارک ہانگ، مصنفہ "Minor Feelings"
زبان کے اشتراک میں پائے جانے والے ناقابلِ بیان اعتماد کی ایک عکّاسی۔
—دی نیویارک ٹائمز
ایک غیرمعمولی ناول جو ہر بار پڑھنے پر نئی گہرائیوں سے آشکار کرتا ہے۔
—گارجین
---
ہان کانگ27 نومبر 1970ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگ جُو میں پیدا ہوئیں۔ وہ معروف کوریائی ادیب ہان سونگ وون کی صاحبزادی ہیں۔ 1993ء میں انھوں نے ادبی سفر کا آغاز اپنی نظم ’’ادب اور معاشرہ‘‘ کی اشاعت سے کیا۔ 1994ء میں اُن کی کہانی "The Scarlet Anchor" کو سیئول شِنمن کے سالانہ ادبی مقابلے میں منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد اُن کی تخلیقات کا سلسلہ تیزی سے جاری رہا، جن میں انسانی وجود، تنہائی، اداسی اور معنویت کی تلاش جیسے موضوعات غالب نظر آتے ہیں۔ ان کے ابتدائی کاموں میں کہانیوں کا مجموعہ "A Love of Yeosu" (1995) اور ناول "Black Deer" (1998) شامل ہیں۔ 1999ء میں ان کا ناول "Baby Buddha" کورین ناول لٹریچر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ ان کے ناول "Mongolian Mark" میں جسمانی خواہشات اور فنکارانہ لطافت کو اس مہارت سے ہم آہنگ کیا گیا ہے کہ یہ فن پارہ کوریائی عصری ادب کا ایک اہم سنگِ میل بن چکا ہے۔ اس ناول پر انھیں 2005ء میں یی سانگ ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہان کانگ کی عالمی شہرت کا آغاز 2016ء میں اُس وقت ہوا جب ان کا ناول "The Vegetarian" بُکر انٹرنیشنل پرائز جیتنے والا پہلا کوریائی ناول قرار پایا۔ اس ناول میں انھوں نے جسم، تشدد اور انکار کے پیچیدہ تعلق کو علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔ 2024ء میں انھیں ادب کے شعبے میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی کوریائی مصنفہ اور پہلی ایشیائی خاتون ہیں۔ یہ اعزاز اُنھیں ان کے ادبی کمالات اور انسان دوست فکر کے اعتراف کے طور پر عطا کیا گیا۔ یہ امر نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ہان کانگ اپنی حساسیت، فنی زبان، اور الم انگیز نقطۂ نظر کے باعث نہ صرف کوریائی ادب بلکہ عالمی ادب میں بھی ایک منفرد اور مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ وہ نئی نسل کی خواتین اہلِ قلم کے لیے تخلیقی افق کی علامت بن چکی ہیں۔
---
یونس خان 15 مارچ 1964ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈبل میتھس اور انگلش میں گریجویشن مکمل کی۔ 1992ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی بی اے (آنرز) کیا اور 1994ء میں ایم بی اے شروع کیا، تاہم وہ اسے مکمل نہ کر سکے۔ اس دوران پی ٹی سی ایل میں جاب کرتے رہے، مگر ادب سے رشتہ مسلسل مضبوط ہوتا گیا۔ 2014ء میں اپنے بیٹے کے ساتھ لاہور میں سافٹ ویئر ہاؤس قائم کیا اور یوں عملی طور پر آئی ٹی کے شعبے سے بھی جڑ گئے۔ 2018ء میں انھوں نے تخلیقی تحریر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، بزنس ڈویلپمنٹ اور ای کامرس مینجمنٹ جیسے جدید علوم میں مہارت حاصل کی۔ ان کے تحقیقی و تجزیاتی مضامین اور تبصرے مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ فطرت اور بلندیوں سے شغف انھیں دنیا کی بلندترین چوٹیوں میں سے ایک ’’کے وَن‘‘ کے بیس کیمپ تک لے گیا، جس کی روداد سہ ماہی ’’لوح‘‘ میں شائع ہوئی۔ یونس خان عالمی ادب کی کئی اہم کتابوں کو اُردو میں منتقل کر چکے ہیں جن میں نوبیل انعام یافتہ مصنفہ ہان کانگ کا ناول ’’یونانی اسباق‘‘، کنفیوشس کی کتاب ’’سنگی کتابیں کاغذی پیراہن‘‘، سیمون دی بووا کا ناول ’’شعور کی عمر‘‘ اور اَینی اَرنو کی یادداشتیں ’’گمشدہ‘‘ شامل ہیں۔ آج کل وہ لاہور میں مقیم ہیں۔