Ghuroob e Shehr Ka Waqt (3rd Edition)

GHUROOB E SHEHR KA WAQT (3RD EDITION) غروب شہر کا وقت

Inside the book
GHUROOB E SHEHR KA WAQT (3RD EDITION)

PKR:   2,500/- 1,750/-

Author: OSAMA SIDDIQUE
Pages: 576
ISBN: 978-969-662-517-9
Categories: NOVEL
Publisher: BOOK CORNER

ایک پُرانا تاریخی شہر، اپنی عظمتوں کی شام سے دوچار، اپنی ثقافت، اپنی محبوبی، رہن سہن، تعلیم، عدل و انصاف اور وسیع المشربی پر اُچٹتی، اُداس نظر ڈالتا ہوا، جو آخرکار غروب کی دل دوز ساعت میں موجود تو رہے گا مگر تقریباً گُم شدہ، جیسے خالی ہوتے گھروں میں سائے اور صدائیں رہ جائیں۔ اُسامہ صدیق کے ناول میں اسی منہ چُھپاتے شہر کی داستان ہے۔ اس میں اگر جا بجا طنز و مزاح کے چھینٹے نہ ہوں تو بالکل دل خراش معلوم ہونے لگے۔
تاریکی کے انھیں پھیلتے دھبوں میں کہیں کہیں روشنی کی بندکیاں بھی ہیں جو خود کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لاہور کے بارے میں ایک ناول جس کا در و بست روایتی ناولوں سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ آوازوں کے ان تانوں بانوں میں ایک ہوائی مخلوق کی آواز بھی شامل ہے جو اس بگاڑ سے اتنی ہی ناخوش ہے جتنے بعض دوسرے حسّاس انسان۔ یہاں عدل و انصاف کا نام نہیں، قبضہ گروپوں کے حریص مسخروں کے کرتبوں سے مسخر ہونے والوں کا ہجوم ہے۔ ایک شہر جو رونقِ خیال و احوال تھا ٹوٹ پھوٹ کر حقیقی ملبوں میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اُسامہ صدیق نے اپنے زورِ قلم سے اس کی افسردگی اور زوال کو گویا مصوّر کر دیا ہے۔ ناول نگار دُنیا کو بدل تو نہیں سکتے لیکن ہمارے سُود و زِیاں کا حساب ضرور رکھتے ہیں۔
محمد سلیم الرحمٰن

ہر تخلیق کار پر اگر وہ خوش بخت ہو تو ایک ایسا لمحہ اترتا ہے جس کی اُسے خبر نہیں ہوتی، اور اُس لمحے وہ جو کچھ تخلیق کرتا ہے وہ خود نہیں کرتا، اُس سے سرزد ہو جاتا ہے.. اور جب وہ لمحہ گزر جانے کے بعد وہ اپنی تخلیق کو پرکھتا ہے تو وہ خود اُسے پہچان نہیں سکتا اور ایک عالمِ تحیّر میں چلا جاتا ہے اور خود سے سوال کرتا ہے، کیا واقعی یہ میری تخلیق ہے اور جواب آتا ہے کہ یہ وہ ہے جس کی تمھیں خبر نہیں، جو رہی سو بے خبری رہی، تم پر ایک نزول کا لمحہ اترا اور گزر گیا۔
اُسامہ صدیق کے ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ کے کچھ حصّے ایسے ہیں جو ایسے ہی لمحوں کی خود فراموش وارفتگی میں تحریر ہو گئے۔ بےخودی کے لمحے میں لکھے گئے۔ اور یاد رہے کہ وارفتگی اور بےخودی میں ترتیب نہیں ہوتی۔ اُس کا ظاہری انتشار ہی اُس کی ترتیب ہوتی ہے.. بقول چکبستؔ اگر زندگی عناصر کا ظہورِ ترتیب ہے تو ایک بڑا ناول عناصر کے ظہورِ ترتیب کی بے ترتیبی ہے۔
اُسامہ بھی جوناتھن لِونگ سٹن سِیگل (Jonathan Livingston Seagull) کی مانند پرواز کی طے شدہ حدّوں سے پار جانا چاہتا ہے۔ ناول کی جو مقیّد حدود ہیں اُن کو بھی عبور کرنا چاہتا ہے۔
اگر بڑی نثر بے یقینی کو عارضی طور پر معطّل کر دیتی ہے تو اس کی ایک منفرد مثال اُسامہ صدیق کا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ ہے۔
مستنصر حسین تارڑ

اسامہ صدیق کا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ پڑھنے کے دوران مجھے بار بار یہ احساس ہوتا رہا جیسے میں بلندی سے نیچے جانے والی سیڑھیاں ایک کے بعد ایک طے کرتا جا رہا ہوں۔ سیڑھیاں جو جگمگاتی ہوئی زمین پر نہیں بلکہ کسی لامتناہی اندھیرے میں اتر رہی ہوں۔ زوال کے اصل معنی شاید یہی ہوتے ہیں۔ اسامہ صدیق نے شہر کے زوال کا منظر لکھا ہے اور یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اگرچہ یہ ناول لاہور کے غروب ہونے کے وقت کے بارے میں ہے مگر اپنے انجام تک پہنچتے پہنچتے یہ کسی مخصوص شہر یا مقام سے ماورا ہو جاتا ہے اور دنیا کے ہر ثقافتی مرکز کے زوال کا نوحہ بن جاتا ہے... ہمارے زمانے میں اتنی عمدہ نثر کے نمونے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ نثر ہر کیفیت، ہر صورتِ حال اور ہر منظر کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی تخلیقیت کے دھارے میں تاریخی شعور کا بوجھ بھی برداشت کرتی ہے... یہ ناول اُردو میں مابعد جدید بیانیہ (post modern narrative) کی شاید سب سے زیادہ توانا مثال بن کر سامنے آیا ہے۔
خالد جاوید

پتا نہیں اسامہ صدیق کا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ ہاتھ میں تھامتے ہی رگ و پے میں ایک گہرا دکھ اور یاس سا کیوں اترنے لگتا ہے۔ شاید سیکڑوں سالوں سے بار بار بسنے اور اجڑنے والا یہ ناسٹلجیائی سی کیفیات کا حامل دلبر سا شہر جسم و جان سے روح کی طرح ہی چمٹا ہوا ہے کہ اس کے زوال بارے کوئی بھی بات اِنّی کی طرح کلیجے میں اتر جاتی ہے۔ یہ ناول معاشی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حالات کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے۔ پچھتّر سالہ تاریخ کا کوئی اہم واقعہ جس نے ملکی حالات کو متاثر کیا ہو، اس کا ذکر کسی نہ کسی انداز میں ہوا ہے۔ عنوانات کی دل کشی اور انفرادیت معنی خیز اور متاثر کن ہے۔
سلمیٰ اعوان

اکیسویں صدی کے پہلے دو دہائے اُردو میں ناول کے دہائے سمجھے جاتے ہیں، کئی اچھے ناول اور ناول نگار سامنے آئے۔ انھیں میں ایک چونکا دینے والا نام اُسامہ صدیق کا ہے۔ اَدبی دُنیا میں ان کی آمد عبد اللہ حُسین سے وابستہ وہ روایت یاد دلا دیتی ہے کہ وہ پہلی بار ’’اُداس نسلیں‘‘ کے ساتھ متعارف ہوئے اور اَدبی اُفق پر چھا گئے۔ اُسامہ بھی ایسے ہی خوش قسمت ادیبوں میں سے ہیں۔ اُسامہ پر اس پرانی کہاوت کا اطلاق ہوتا نظر آیا کہ اس کے آنے کی خبر سُن کر سرخ قالین بچھا دیے گئے، وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔ ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ نے پہلی بار مجھے ناول کی ایک اچھی تعریف سجھائی کہ ناول خصوصی حالات و واقعات کا عمومی اور سہل اظہار ہے اور عمومی حالات و واقعات کا غیر معمولی اظہاریہ۔ یہ ناول نئے عہد کا ڈسکورس ہے۔ یہ نئی صدی کا کلامیہ ہے۔ وجود سے لاوجود کا قِصّہ ناول کی مرکزی جہت ہے۔ اُسامہ صدیق نے اس فکر کی گہرائی کو انتہائی جدید اُسلوب اور تکنیک بخشی ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ اک لمبا عرصہ اس ناول پر بات چیت جاری رہے گی۔
ڈاکٹر طاہرہ اقبال

’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ مجھے ختم کرنے میں کچھ دن تو لگ گئے مگر سہج سہج پڑھنا بہت سود مند ثابت ہوا۔ مجموعی طور پر با کمال ناول ہے۔ میرے خیال میں اس کا پلاٹ ہرگز روایتی نہیں، اس لیے ہر کوئی اس کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے نہ تحسین کر سکتا ہے۔ اس کا خلاصہ بنانے کی کوشش بھی عبث ہے۔ اُردو ناول میں اس طرح کا تجربہ اس سے پہلے کرنے کی کسی نے جراَت نہیں کی۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا

انگریزی میں "Snuffing Out the Moon" جیسا عمدہ ناول لکھنے کے بعد اُردو کے اس ناول میں اُسامہ کی تحریر اور جو فضا یہ قائم کرتے ہیں اور جس طرح سے انھوں نے داستانوں کے حوالے دیے ہیں اور جس طرح اپنی زندگی کے سفر کو انھوں نے لاہور سے جوڑا ہے وہ حیران کن حد تک متاثر کن ہے۔ یہ شاید اس لحاظ سے اکیلے ہیں کہ جس اعلیٰ معیار کی انگریزی فکشن انھوں نے لکھی ہے اس سے بھی بہتر معیار کی اردو فکشن لکھی ہے۔ اس ناول سے مجھے جیمز جوئیس کے مشہورِ زمانہ ناولوں "Ulysses" اور "Dubliners" کا خیال آتا ہے جو Dublin کے بارے میں ہیں۔ What Dublin was for James Joyce Lahore is for Osama Siddique۔ یہ کتاب کیا چیز ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ میں اگر اپنے گھر میں کتابوں کو ترتیب دوں تو اُسامہ کی اس کتاب کو قرۃ العین حیدر کی کتابوں کے قریب ہی رکھوں گا۔
غازی صلاح الدین

اُسامہ صدیق کا اُردو نثر کا مطالعہ جدید اُردو ناول لکھنے والوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ خاص کر کلاسک اُردو داستانوں کا مطالعہ اُنھوں نے بہت کر رکھا ہے اور مسلسل کرتے ہیں۔ عالمی ادب کے ناول بھی پڑھ رکھے ہیں، لہٰذا وہ اُردو ناول کی مبادیات، تاریخ اور تہذیب و ارتقا سے مکمل واقف ہیں۔ یہ ناول سب سے ہٹ کر اپنی ایک مثال قائم کرتا ہے۔ اُسامہ اب ایسا ادیب ہے جس کو ضرور بر ضرور پڑھا جانا چاہیے۔
علی اکبر ناطق

اُسامہ صدیق کا ناول لاہور کے نام ایک محبت نامہ ہے۔ اگر آپ افتاد طبع کے لحاظ سے الف لیلوی واقع ہوئے ہیں، قصہ چہار درویش، آرائش محفل اور ہزار داستان جیسی تحریریں پڑھتے ہیں، جاڑوں کی ٹھٹھرتی چاندنی میں گلیوں میں بے مقصد گھومتے ہیں، میٹھا پان کھا کے ’اے دل کسی کی یاد میں‘ گاتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں اور کسی شام ہم جیسے قصہ گووں کی محفل میں آ نکلتے ہیں تو فوری طور پہ یہ ناول حاصل کیجیے۔ یہ ناول ایک کیفیت ہے۔ ویسی ہی کیفیت جیسی نومبر کے اوائل میں علی الصباح ہار سنگھار کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کے چپ چاپ اس کی کلیوں کو کندھوں پہ، بالوں پہ، نم زمین پہ گرتے ہوئے محسوس کرنا۔
آمنہ مفتی

بیسویں صدی کے ربع اوّل میں دو ناولوں پہ بہت زیادہ گفتگو ہوتی رہی اور ہو رہی ہے۔ پہلا ہے ’’غلام باغ‘‘ اور دوسرا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس صدی کا تیسرا اہم ناول ہے جس میں ہمارے وجود کے بارے میں سوچا گیا ہے۔ اس کا ایک خاص کمال یہ ہے کہ اس میں حقیقی مقامات اور کرداروں کو fictionalize کیا گیا ہے۔ جب کوئی تخلیق کار یہ کمال کر پاتا ہے تو وہ کردار eternal ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ جاننا ہو کہ پچھلے پچاس سالوں میں ہمارے ساتھ، ہمارے وجود کے ساتھ، ہمارے معاشرے کے ساتھ، ہماری ثقافت کے ساتھ، اور ہماری زندگی کے ساتھ کیا ہوا ہے تو اس ناول کو پڑھے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن

اُسامہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو اپنے ماضی اور اپنے ماضی کا ادبی سرمایہ، خاص طور پہ داستان کا سرمایہ، بروئے کار لاتے ہوئے ہمارے زمانے کے معاملات، ہمارے زمانے کے درد، تکلیف اور دُکھ کو دیکھتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ کئی جگہ تو ماضی کی کسی داستان کے اقتباس سے موجودہ حالات پہ لکھا ہوا باب شروع ہوتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان کا اصل میدان تو انگریزی ہے۔ ان کا پہلا ناول اس زبان میں پہلے سے موجود ہے اور یہ ان کا اُردو میں پہلا تخلیقی کام ہے، لیکن اس ناول کی زبان ایک غیر معمولی تخلیقی زبان ہے اور ایسا ہی اس کا نریشن ہے۔ مزید یہ کہ اگر اس کتاب میں کچھ جگہ لاہور کا حوالہ نہ ہو تو یہ پورے برِصغیر کی صورتِ حال کا اشاریہ بن جاتا ہے۔
احمد محفوظ

خالد، ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ کا وہ کردار ہے جس کی آنکھوں سے ایک اور پچاس برس کا قصہ ، لوگوں تک پہنچنا شروع ہوا ہے۔ گورنمنٹ کالج کے تدریسی زوال سے ہائیکورٹ کے عدالتی انحطاط تک، گمنام بنگلوں میں مقید عوامی نمائندوں سے منقش ایوانوں میں فرستادہ افسران تک، ڈاکٹر نوریز احسن سے رشید پٹواری اور کموڈوی سے ٹائٹ پینٹ تک خالد کا یہ روزنامچہ ہی شہر کے غروب کا رنگ ہے۔ مگر، ان سب کے سوا ایک اور کردار بھی ہے جس کا نوحہ، پس منظر میں ہلکے ہلکے ماتمی انداز میں بڑھتا ہے۔ کہنے کو یہ کردار، شہرِ لاہور کی تمثیل ہے مگر پژمردگی کی یہ دھند، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے، بضد ہے کہ بات لاہور تک محدود نہیں، شاید اس لیے کہ لاہور خود بھی کسی حد بندی کا قائل نہیں رہا۔ کہانی کی بنتر میں داستانوں کی گرہ تو دلآویز ہے ہی، واقعات کی رلی میں جو پارچے، زرخیز زمین کی رہائشی منصوبوں میں تبدیلی سے متعلق ہیں، دل گیر ہیں۔ سانس لیتی زمین کی رگوں میں منجمد سیمنٹ اتار کر زیرِ زمین نایاب ہوتے پانی کا واقعہ ہو یا صدیوں پرانے درخت کاٹ کر تازہ ہوا کی قلّت کا معاملہ، خدا جانے، ہمارے بڑوں نے لوبھ کا کون سا بیج بویا تھا کہ ہم ہل من مزید کے سوا کوئی اور فصل کاشت ہی نہیں کر پا رہے۔
محمد حسن معراج

RELATED BOOKS